Orhan

Add To collaction

محبت نہیں عشق یے

محبت نہیں عشق یے
از قلم این این ایم
قسط نمبر14

آج ماہروش صبح جلدی اٹھ گئی تھی وہ حسیب کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی اس نے حقیقت تسلیم کر لی تھی وہ حدیب کی نہیں حسیب کی بیوی تھی اس نے حسیب کے لیئے اچھا سا ناشتا تیار کیا اور حسیب کے ناشتہ مانگنے سے پہلے ہی ناشتہ لے آئی ارے واہ آج تو میری بیوی بہت اچھے کام کر رہی ہے  حسیب نے تمام نوکروں کو بتا دیا تھا کے وہ اس کی بیوی ہے اور اسے اپنے کمرے میں بھی شفٹ کروا لیا تھا  اور حسیب کے ماں باپ دو سال پہلے کار ایکسیڈنٹ میں فوت ہو چکے تھے اور رشتے داروں سے وہ ملنا پسند نہیں کرتا تھا ماہروش کو اس کا یہ رویہ دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا تھا مگر وہ صرف اپنی غرض کے لیئے تھاماہروش سوری مینے جو تمہارے ساتھ رویہ رکھا اور تو اور تھپڑ بھی مار دیا مجھے معاف کردوحسیب نے ماہروش کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ارے یہ کیا کر رہے ہیں  عورت تو ہوتی ہی جذباتی ہے مرد کے دو میٹھے بول سے ہی اس کی ساری زیادتیاں  بھول جاتی ہے اور ماہروش نے بھی یہی کیا مینے اپکو  معاف کیا   شکریہ ماہروش شکریہ چلا او ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں حسیب نے بہت پیار سے کہا اور وہ دونوں ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگے اس کے بعد حسیب آفس  چلا گیا اور وہ گھر کے دوسرے کام نپٹانے چلی گئی 
==0====== 
ایک سال بعد 
مبارک ہو حسیب کمال اپکو بیٹی ہوئی ہے ڈاکٹر نے حسیب کو بتایا وٹ آپ سچ کہہ رہے ہیں نا ڈاکٹر میں بہت خوش ہوں آج حسیب اپنی  خوشی ظاہر کر رہا تھا کیا میں ماہروش کو مل سکتا ہوں حسیب نے ڈاکٹر سے پوچھا کیوں نہیں آپ ضرور مل سکتے ہیں ڈاکٹر یہ کہتی ہوئی چلی گئی اور وہ ماہروش کے کمرے میں داخل ہوا
ماہروش اللہ نے ہمیں اپنی رحمت سے نوازا ہے حسیب پیاری سی گڑیا کو دیکھتا ہوا بولا جو ماہروش کے پاس سو رہی تھی  حسیب اپ نے بابا اور طایا جان کو بتا یا اس بارے میں ماہروش نے حسیب سے پوچھا ہاں میں نے کب کا بتایا  دیا وہ یہاں پوہنچنے بھی والے ہوں گے حسیب نے اسے بتایا 
===000=====
آدھے گھنٹے بعد  طاہر صاحب انور صاحب اور طائی جان  بھی پہنچ چکے تھے مگر حدیب ان کے ساتھ نہیں تھا دو دن تک وہ وہی ماہروش کے ساتھ ہسپتال میں رہے تھے آج ماہروش ڈسچارج ہوکر گھر آگئی تھی  سب تھکے ہوئے تھے سب سونے چلے گئے سوائے طاہر صاحب کے اور حسیب کے دونوں لاونج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے انکل مجھے آپسے بات کرنی تھی حسیب نے دھیرے سے کہا جھی کہو  کیا بات ہے طاہر صاحب ہمدردی سے بولے 

   1
0 Comments